بنوں میں قیام امن کے لیے جاری دھرنے کے شرکا کی جانب سے تشکیل کردہ جرگہ مذاکرات کے لیے پشاور پہنچ گیا ہے۔ جو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے ملاقات کرکے مطالبات پیش کرےگا۔
جرگہ ممبران نے روانگی سے قبل بنوں میں دھرنے کے اہم رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی اور ان کے مطالبات کو سننے کے بعد حتمی شکل بھی دی گئی جو وزیراعلیٰ اور صوبائی حکومت کے سامنے رکھے جائیں گے۔
قبل ازیں دھرنے میں موجود رہنما مولانا عبد الغفارنے وی نیوز کو بتایا تھا کہ جرگہ جاری ہے، اور معاملے کو مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھایا جائے گا۔
45 رکنی جرگہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے ملاقات کے لیے بنوں سے روانہ ہوا تھا جو اب پشاور پہنچ گیا ہے۔ اس سے قبل وزیراعلیٰ ہاؤس میں موجود ذرائع نے بتایا تھا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں جرگہ ممبران کا انتظار ہو رہا ہے۔ ’ابھی تک جرگہ ممبران پہنچے نہیں ہیں ہمیں بتایا گیا ہے کہ راستے میں ہیں‘۔
بنوں میں جاری امن دھرنے کے شرکا نے حکومت سے مذاکرات کے لیے 45 رکنی جرگہ تشکیل دیا ہے۔ جس میں بااثر علاقہ عمائدین، تحریک انصاف کے رہنما اور صوبائی وزیر پختویار خان، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اراکین شامل ہیں۔
دھرنے کے ایک رکن نے بتایا کہ جرگے کی تشکیل کے بعد 16 نکاتی مطالبات کو بھی حتمی شکل دی گئی ہے جو جرگہ حکومت کے سامنے رکھے گا۔
دھرنے میں موجود ایک رکن عدنان خان نے بتایا کہ بنوں میں اس وقت بھی دھرنا جاری ہے جس میں تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان شریک ہیں لیکن سب کے ہاتھ میں سفید پرچم ہے اور پارٹی سے بالاتر ہیں۔
جرگے کو دیے گئے مطالبات کی کاپی وی نیوز کو موصول ہوگئی ہے۔ جس میں قیام امن کے لیے موثر اور ٹھوس اقدامات اٹھائے پر زور دیا گیا ہے۔
مطالبات کا پہلا نقطہ آپریشن عزم استحکام کے خلاف ہے، اور واضح کیا گیا ہے کہ آپریشن کسی صورت انہیں قبول نہیں۔ جبکہ اس کے ساتھ دوسرے نمبر پر بنوں میں مبینہ طور پر موجود طالبان کے مراکز کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ مقامی پولیس کو بااختیار کیا جائے اور آپریشن کے لیے جدید سامان دیا جائے۔ مطالبات میں پے درپے پولیس چھاپوں کو بھی بند کرنے کا مطالبہ شامل ہے، کہ مدارس اور مقامی افراد کی بے عزتی نہ کی جائے۔