ملک کے سابق جاسوس لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو فوجی حکام نے حراست میں لے لیا ہے اور ان کے خلاف بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور پاکستان آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزامات پر کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں کی گئی شکایات کی درستگی کا پتہ لگانے کے لیے تفصیلی کورٹ آف انکوائری کی گئی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔کرپشن،
کرپشن اختیارات کے ناجائز استعمال اور آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی
بادشاہ گر جنرل فیض کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔آئی ایس آئی کے سربراہ کے طاقتور عہدے کو دیکھتے ہوئے یہ غیر معمولی سمجھا جاتا ہے کہ سابق جاسوس ماسٹر کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی بھی شروع کی گئی ہے۔جنرل فیض کے خلاف الزامات مئی 2017 کے ہیں جب وہ آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے۔
چار کروڑ روپے 400 تولے سونا ،ٹاپ سٹی کے مالک کا دعوی
8 نومبر 2023 کو ٹاپ سٹی کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں انہوں نے جنرل فیض پر اپنے اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ 12 مئی 2017 کو جنرل فیض کے کہنے پر آئی ایس آئی حکام نے ٹاپ سٹی آفس اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ درخواست گزار نے الزام عائد کیا کہ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی حکام نے گھر سے سونا، ہیرے اور رقم سمیت قیمتی سامان ضبط کیا۔درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنرل فیض کے بھائی سردار نجف نے بھی بعد میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کیا تھا۔ اور
جنرل فیض نے بعد ازاں اس معاملے کو حل کرنے کے لیے ان سے ذاتی طور پر ملاقات کی، جس میں انہوں نے یقین دلایا کہ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی حکام جو سامان لے گئے تھے انہیں واپس کیا جائے گا۔ البتہ 400 تولے سونا اور نقدی انہیں واپس نہیں کی جائے گی۔علاوہ ازیں چار کروڑ روپے کی نقد رقم وصول کی۔
کیا سابق وزیر اعظم کو مزید مقدمات میں پھنسانے کا کھیل ہے ؟
معاملے کی حساسیت اور ان سنگین الزامات کے پیش نظر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین شامل تھے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایک بہت سنگین معاملہ ہے اور الزامات کی سنگین نوعیت پورے ادارے کی شبیہ کو نقصان پہنچا سکتی ہے ، لہذا اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں اور متعلقہ حکام سے بات چیت کریں۔اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ اس معاملے میں مکمل تعاون کیا جائے گا اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
‘رینک جتنا زیادہ ہوگا،احتساب اتنا ہی سخت ہوگا’۔ احمد شریف چوہدری
اس ہدایت کے بعد فوج نے اس معاملے کو دیکھنے کے لئے انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔ کیونکہ فوج میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا طریقہ کار تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔یہ عمل کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر کے خلاف کورٹ آف انکوائری سے شروع ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ‘شواہد کا خلاصہ’ ریکارڈ کیا جاتا ہے اور اگر کافی شواہد موجود ہوں اور جرم ثابت ہو جائے تو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔سزا جرم کی نوعیت پر منحصر ہے اور اس میں عہدے میں کمی، مراعات کی منسوخی، سخت محنت کے ساتھ قید اور یہاں تک کہ سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔
جنرل فیض کون ہیں؟
جنرل فیض کا شمار پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین آئی ایس آئی سربراہوں میں ہوتا تھا۔ خفیہ ایجنسی کا سربراہ بننے سے قبل وہ آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے جو انٹیلی جنس سروس میں سب سے بااثر عہدوں میں سے ایک ہے۔کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل فیض کی گرفتاری اور اس کے بعد کورٹ مارشل خان کے لیے اچھی خبر نہیں ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم کو مزید مقدمات میں پھنسایا جا سکتا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘رینک جتنا زیادہ ہوگا، ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہوگی اور احتساب اتنا ہی سخت ہوگا’۔ ہمیں اپنے احتسابی نظام پر فخر ہے جو الزامات پر نہیں بلکہ حقائق پر کام کرتا ہے۔