عالمی عدالت انصاف نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے علیحدہ اور خودمختار ریاست کا قیام فلسطینیوں کا اصولی حق قرار دے دیا۔ دی ہیگ میں منعقدہ اجلاس میں عالمی عدالت انصاف نے کہا کہ عدالت اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں پر اپنی رائے دینے کا حق رکھتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ 1958 کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شہریوں کے تحفظ سمیت انہیں پانی اور غذائی امداد پہنچانے کا پابند ہے، تاہم اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں سنگین خلاف ورزیاں کیں۔
عدالت نے کہا کہ یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں کی جائیدادوں پر جاری قبضے سے اسرائیل نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، ساتھ ہی اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے شہریوں کو زبردستی بے دخل کرکے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینیوں کے علاقوں پر جبری قبضہ کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرنا جنیوا معاہدے کے آرٹیکل 53 اور 64 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے اسرائیل پر فلسطینیوں کے مقبوضہ علاقوں کے وسائل غصب کرنے کا الزام عائد کیا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ٹھوس شواہد کے مطابق اسرائیل مغربی کنارے پر زبردستی اپنا تسلط قائم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، عدالت نے مزید کہا کہ عدالت مغربی کنارے میں اسرائیلی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے دی گئی وجوہات اور دلائل سے قائل نہیں ہوئی۔
عدالت نے کہا کہ اسرائیل نے مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں غاصبانہ انداز اپنایا ہوا ہے جیسے وہ اس کا علاقہ ہے، اسرائیل کی پالیسیوں اور کارروائیوں نے فلسطینیوں کے لیے حق خود ارادیت کے حصول کو انتہائی دشوار کر دیا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینیوں کے ساتھ جاری برتاؤ نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے زمرے میں آتا ہے، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی کاروائیاں انسداد نسل پرستی معاہدے کے آرٹیکل 3 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔