پاکستان (نیوز ڈیسک) مشرقی افغانستان کے صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والی22 سالہ فوزیہ اور23 سالہ جمیلہ افغان ٹرانس جینڈر پناہ گزین ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد وہ افغانستان سے فرار ہوئے اور پاکستان میں پناہ لی۔ انھوں نے ہم جنس پرستوں کی ایک محفل میں زنانہ کپڑوں میں رقص کرتے ہوئے اُن کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد اُنھیں ’اپنی جان بچانے کے لیے افغانستان سے مجبوراً بھاگنا پڑا تھا۔‘
مشرقی شہر جلال آباد سے تعلق رکھنے والی فوزیہ کہتی ہیں کہ میری ماں نے کہا کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ‘افغانستان سے فرار ہونے کے بعد میرے گھر والوں کو پتہ چلا کہ میں ٹرانس جینڈر ہوں اور میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اب جب تم گھر سے بھاگ گئے ہو تو کبھی واپس نہ آنا، گھر کے دروازے ہمیشہ کے لیے تم پر بند ہو گئے ہیں. جمیلہ کے لمبے لمبے بال ہیں، اور جب بھی ان کا سرخ اور پیلا سکارف ان کے سر سے سرکنے کی بعد کندھوں پر آگرتا ہے تو وہ اسے واپس اپنے سر پر کھینچ لیتی ہیں۔ انھوں نے سرخ، جامنی اور پیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور بولتے ہوئے وہ نظریں جھکا لیتی ہیں اور زمین کی طرف دیکھتی ہیں۔
جمیلہ کا کہنا ہے کہ ’جب میرے گھر والوں نے میرے ڈانس کی ویڈیوز دیکھی تو انھیں احساس ہوا کہ میں ٹرانس ہوں، میرے بھائیوں نے مجھے بری طرح پیٹا، میں شدید زخمی ہو گئی تھی، میرے والد نے مجھے کلہاڑی سے بھی مارنے کی کوشش کی، لیکن میری ماں نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور گھر سے باہر نکال دیا اور کہا کہ اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ۔‘
فوزیہ پاکستانی ٹرانس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے ساتھ رہتی ہیں جن کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے نوکری ملنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ پارٹیوں اور شادیوں میں رقص کر کے پیسہ کماتے ہیں۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ جب وہ ان پارٹیوں میں جاتی ہیں، تو وہ انھیں بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ ’اپنے سامان اور بیگ کی دیکھ بھال کر سکیں۔‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ رہائش اور کھانے کے بدلے ان لوگوں کے گھر کا کام کرتے ہیں۔ جمیلہ کہتی ہیں کہ وہ ہفتے میں ایک یا دو بار پارٹیوں میں جاتی ہیں اور جب وہ واپس آتی ہیں تو اکثر انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آوارہ گھومنے والے افراد اجتماعی ریپ کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور بعد میں مجھے دھمکی دیتے ہیں کہ اگر میں نے پولیس یا کسی اور کو اطلاع دی تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔‘ میں پولیس کے پاس نہیں جا سکتا کیونکہ میرے پاس دستاویزات نہیں ہیں اور پولیس مجھے واپس افغانستان بھیج دے گی، لہٰذا مجھے برداشت کرنا پڑے گا۔‘
فوزیہ کا کہنا ہے کہ انھیں ایک بار پاکستانی پولیس نے گرفتار کیا تھا لیکن بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا کہ ’کوئی بھی مجھے پیسے نہیں دیتا ہے، لوگ ان کو پیسے دیتے ہیں جو میری دیکھ بھال کرتے ہیں، اور وہ مجھے ماہانہ تقریبا 1،000 روپے ملتا ہے۔