ہنوئی: اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام سائبر کرائم کے خلاف پہلا عالمی معاہدہ طے پا گیا، جس پر دنیا کے 60 سے زائد ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ تاہم ٹیکنالوجی کمپنیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس معاہدے کو ریاستی نگرانی بڑھانے کا ذریعہ قرار دے کر شدید تنقید کی ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق اس معاہدے کا مقصد ڈیجیٹل جرائم جیسے آن لائن فراڈ، بچوں سے متعلق فحش مواد، اور منی لانڈرنگ جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے معاہدے کو اہم سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف آغاز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ آن لائن فراڈ لاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہے اور عالمی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچاتا ہے، اس لیے ایک متحد عالمی ردعمل کی ضرورت ہے۔
یہ معاہدہ سب سے پہلے 2017 میں روسی سفارت کاروں کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا، جس پر کئی سال کی مذاکراتی کوششوں کے بعد گزشتہ برس اتفاقِ رائے سے منظوری دی گئی۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ معاہدے میں استعمال ہونے والی غیر واضح زبان حکومتوں کو ناقدین اور مخالفین کے خلاف سرحد پار کارروائیوں کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔
ٹیک گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی بانی سبحاناز راشد دیا کے مطابق یہ معاہدہ کمپنیوں کو ڈیٹا فراہم کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، جو صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی خطرناک روایت کو قانونی شکل دیتا ہے جو پہلے ہی آمرانہ ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی کے لیے استعمال ہو چکی ہے۔
ویتنامی حکومت کے مطابق 60 ممالک نے دستخط کے لیے رجسٹریشن کرائی ہے، تاہم ان کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فہرست صرف روس، چین اور ان کے اتحادیوں تک محدود نہیں رہے گی۔
سبحاناز راشد دیا کا کہنا تھا کہ حتیٰ کہ جمہوری ممالک بھی ڈیٹا تک محدود رسائی کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں، لہٰذا وہ اس معاہدے کو ایک مصالحاتی دستاویز کے طور پر قبول کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے معاہدے کی تحفظاتی شقوں کو کمزور قرار دیتے ہوئے ان پر سخت تنقید کی ہے۔






