پچھلی بار جب میں اپنے آبائی گاؤں گیا تو بچپن کی ندی کے کنارے کھڑا ہوا۔ وہی ندی جس میں کبھی ہم دوست نہاتے تھے، مچھلیاں پکڑتے تھے، اور جس کے صاف پانی سے گاؤں کے کھیتوں کو زندگی ملتی تھی۔ میں نے وہی ندی دیکھی — مگر اس بار وہ مر چکی تھی۔ پانی نہیں، کیچڑ تھی۔ خوشبو نہیں، تعفن تھا۔ زندگی نہیں، موت کا سا منظر تھا۔ مجھے لگا جیسے زمین نے خود ہی اپنی آخری سانس لے لی ہو۔
میں نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں تو یاد آیا، کبھی میرے والد کہا کرتے تھے:
“بیٹا، درخت کاٹنا آسان ہے، مگر سایہ کھونا مشکل۔”
آج مجھے وہ سایہ، وہ ٹھنڈی ہوا، وہ بارشوں کی ترتیب سب یاد آ رہی تھی — مگر اب وہ سب خواب بن چکا ہے۔
یہ صرف میرے گاؤں کی کہانی نہیں، یہ پاکستان کے ہر شہر، ہر قصبے، ہر ندی کی کہانی ہے۔ لاہور کی فضا میں سانس لینا ایک چیلنج ہے، کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کے پہاڑ اُگ آئے ہیں، فیصل آباد کے کارخانوں نے دریا کے رنگ بدل دیے ہیں۔ اسلام آباد، جو کبھی سبز پہاڑوں کا شہر کہلاتا تھا، اب دھوئیں کے بادلوں میں لپٹا ہوا ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ یہ سب ہوا کیسے؟
کب ہم نے ترقی کے نام پر تباہی کا سودا کر لیا؟
کب ہم نے دولت کے عوض فطرت کا خون کر دیا؟
ہم نے عمارتیں تو کھڑی کر لیں، مگر ہوا گنوا دی۔
ہم نے گاڑیاں بڑھا لیں، مگر سانسیں کم کر دیں۔
ہم نے درخت کاٹے، مگر سایہ چھین لیا۔
دنیا کے بڑے ممالک نے یہ غلطی ہم سے پہلے کی۔ صنعتی انقلاب نے انہیں دولت تو دی، مگر سانس چھین لی۔ لندن کبھی “دھند کے شہر” کے نام سے مشہور تھا، مگر وہ دھند اصل میں زہریلا دھواں تھی۔ لوگ مرنے لگے۔ تب برطانیہ نے سخت فیصلے کیے۔ 1956ء میں “کلین ایئر ایکٹ” بنا۔ فیکٹریوں پر پابندیاں لگیں، گاڑیوں کے ایندھن تبدیل ہوئے، درخت لگائے گئے۔
آج وہی لندن جو کبھی زہر اگلتا تھا، دنیا کے صاف شہروں میں شمار ہوتا ہے۔
اور ہم؟
ہم آج بھی اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل سموگ میں دفن کر رہے ہیں۔
ہماری حکومتیں فائلوں میں ماحولیاتی پالیسی لکھتی ہیں، مگر زمین پر پودا نہیں لگاتی۔
ہم احتجاج کرتے ہیں مگر خود ہی پلاسٹک کے کپ میں چائے پیتے ہیں۔
ہم سوشل میڈیا پر تصویریں لگاتے ہیں “درخت بچاؤ مہم” کی — مگر اپنے گھر کے صحن میں ایک پودا نہیں رکھتے۔
یہ المیہ صرف حکمرانوں کا نہیں، ہمارا بھی ہے۔
ہم نے زمین کو ماں کہا، مگر اس کی ممتا کو روند ڈالا۔
ہم نے دریا کو رزق کہا، مگر اس میں زہر گھول دیا۔
ہم نے فطرت کو خدا کی نعمت کہا، مگر اسے بوجھ سمجھ کر پھینک دیا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، اگر زمین بول سکتی تو کیا کہتی؟
شاید وہ کہتی:
“میں نے تمہیں آکسیجن دی، تم نے دھواں دیا۔
میں نے پھول دیے، تم نے پلاسٹک پھینکا۔
میں نے بارش برسائی، تم نے کنکریٹ ڈال دیا۔
میں نے تمہیں چھاؤں دی، تم نے مجھے جلایا۔”
ایک دن لاہور کی سموگ کے دوران ایک چھوٹے بچے کو دیکھا، وہ ماسک لگائے اسکول جا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، “بیٹا، تم روز ماسک پہنتے ہو؟”
وہ بولا، “جی انکل، امی کہتی ہیں، باہر کا ہوا بیمار ہے۔”
میں حیران ہوا، جب ہوا بیمار ہو جائے تو انسان کیسے صحت مند رہ سکتا ہے؟
ہمیں کسی بڑی کانفرنس یا عالمی فنڈ کی ضرورت نہیں، ہمیں اپنے اندر کے انسان کو جگانے کی ضرورت ہے۔
اگر ہر شہری اپنے گھر کے سامنے ایک درخت لگا دے، اگر ہر فیکٹری اپنے دھوئیں کو فلٹر سے گزارے، اگر ہر اسکول اپنے بچوں کو ماحولیات کا سبق دل سے پڑھائے، تو شاید ہم زمین کو کچھ دیر اور سانس لینے کا موقع دے سکیں۔
دنیا کی ایک اور مثال دیکھیں — ڈنمارک۔
یہ چھوٹا سا ملک آج دنیا کی سب سے صاف اور سرسبز قوموں میں شمار ہوتا ہے۔
وہاں حکومت نے صرف قوانین نہیں بنائے، بلکہ شہریوں کے دل بدل دیے۔
سائیکل چلانا فخر کی بات ہے، پلاسٹک بیگ لینا شرم کی۔
ان کے اسکولوں میں بچے درخت لگانے کو کھیل سمجھتے ہیں، اور صفائی کو عبادت۔
اسی لیے وہاں کی ہوا میں سکون ہے، انسانوں میں اطمینان ہے۔
پاکستان بھی یہ کر سکتا ہے۔
ہماری زمین زرخیز ہے، ہمارا موسم مہربان ہے۔ بس نیت بدلنے کی دیر ہے۔
اگر لاہور میں اسکولوں کے بچے “گرین ٹیمیں” بنائیں، اگر کراچی کے ساحل پر نوجوان “کلین اپ ڈرائیوز” شروع کریں، اگر ہر مسجد میں جمعے کے خطبے میں امام صاحب ماحول کے تحفظ پر بات کریں — تو یقین مانیں، انقلاب آ سکتا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ماحولیاتی آلودگی صرف ایک سائنسی مسئلہ نہیں، یہ انسانی بقا کا سوال ہے۔
یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے
وقت ہے کہ ہم درختوں کو دوبارہ زندہ کریں، ندیوں کو سانس دیں، اور اپنے شہروں کو صاف کریں۔
ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم خود اپنے ہی دھوئیں میں گھٹ جائیں گے۔
آج میں پھر اپنے گاؤں کی ندی کے کنارے کھڑا تھا۔
میں نے وہاں ایک چھوٹا سا پودا لگایا۔
مجھے یقین نہیں کہ وہ درخت بنے گا یا نہیں، مگر میں نے ایک وعدہ کیا —
کہ میں زمین کے ساتھ ظلم نہیں ہونے دوں گا۔
شاید یہ میرا حصہ ہے زمین کی بقا کی جنگ میں۔
ہمارے بچوں کو آسمان نیلا چاہیے، زمین سبز چاہیے، ہوا صاف چاہیے۔
یہ اُن کا حق ہے۔
اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا تو ہماری نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
زمین اب بھی سانس لے رہی ہے،
مگر اس کی سانسیں بھاری ہیں۔
اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے —
ہم اسے آکسیجن دیتے ہیں، یا آخری سانس لینے دیتے ہیں۔






