بارہ ٹہنی

0
205
محمد اظہر حفیظ

بارہ ٹہنی ایک سادہ مگر نہایت گہرا کھیل ہے۔ یہ وہ کھیل ہے جو وقت گزاری سے بڑھ کر انسان کو سوچنے، پرکھنے اور سمجھنے کی عادت سکھاتا ہے۔ ہماری نسل نے یہ کھیل لڈو کے پچھلے حصے پر کھیلنا شروع کیا، کیونکہ عام طور پر لڈو بورڈ کے پیچھے سانپ سیڑھی، شطرنج اور بارہ ٹہنی سب ایک ساتھ بنی ہوتی تھیں۔ لیکن اس کی اصل خوبصورتی یہ تھی کہ اگر آپ کے پاس لڈو نہ بھی ہو، تو زمین پر ایک چاک یا لکیر سے یہ کھیل بنا لینا نہایت آسان تھا۔ پھر دو رنگ یا دو طرح کی گیٹیاں، چاہے وہ پتھر ہوں، بٹن ہوں، یا بنٹے، آپ کے کھیل کو شروع کرنے کے لیے کافی ہوتے تھے۔

ہمارے گاؤں میں یہ کھیل بہت عام تھا۔ گرمیوں کی دوپہروں میں جب دھوپ تیز ہو جاتی، یا سردیوں کی لمبی شاموں میں جب باہر جانا ممکن نہ ہوتا، تو بارہ ٹہنی کھیلنے کا دور دورہ ہوتا۔ بچے، بڑے، سب اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے۔ خاص طور پر جب بجلی نہ ہوتی یا ٹی وی دستیاب نہ ہوتا، تب یہ کھیل ایک تفریح نہیں بلکہ زندگی کا حصہ بن جاتا۔


بارہ ٹہنی میں دونوں کھلاڑیوں کو بارہ بارہ گیٹیاں دی جاتی ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی گیٹیوں کو مد مقابل سے بچاتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی گیٹیوں کو مارا جائے اور اپنی پوزیشن بہتر بنائی جائے۔ ہر چال میں یہ سوچنا ضروری ہے کہ آپ کی حرکت کے جواب میں مخالف کیا کرے گا۔ یعنی یہ کھیل صرف گیٹیاں چلانے کا نہیں بلکہ ذہن کو چالاک بنانے کا کھیل ہے۔ ایک وقت کے بعد آپ کو نہ صرف اپنی چال بلکہ مخالف کی اگلی تین چار چالیں بھی ذہن میں رکھنا پڑتی ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو اس کھیل کو منفرد بناتا ہے۔


ہمارے بہن بھائی اکثر فارغ وقت میں بارہ ٹہنی کھیلتے تھے۔ لیکن اصل مزا تب آتا جب ہمارے چچا، میاں شفیق احمد، ہمارے ساتھ کھیلتے۔ ان کے ساتھ کھیلنا ایک الگ دنیا میں داخل ہونے کے مترادف تھا۔ وہ اکثر بارہ گیٹیوں کے مقابلے میں اپنی صرف ایک گیٹی رکھتے اور پھر بھی کھیل جیت جاتے۔ ہم سب حیران رہ جاتے کہ ایک گیٹی بارہ گیٹیوں پر کیسے بھاری ہو سکتی ہے۔ لیکن جب وہ اپنی مہارت دکھاتے تو ہم پر واضح ہو جاتا کہ اصل جیت تعداد کی نہیں بلکہ عقل کی ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ کھیل کر انسان بہت کچھ سیکھتا تھا۔


چچا شفیق احمد کی یہ عادت کہ وہ اکیلی گیٹی سے ہمیں ہرا دیتے، ہماری سوچ کو جھنجھوڑ دیتی تھی۔ ہم سیکھتے تھے کہ زندگی میں ہمیشہ زیادہ وسائل کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے، بلکہ اصل کامیابی ذہانت، موقع پر صحیح فیصلہ کرنے اور مخالف کو اچانک چال سے چونکانے میں ہے۔

لائلپور کے لوگ جگت اور جواب دینے میں مشہور ہیں۔ کسی کی بات کا برجستہ جواب دینا ان کی عادت ہے۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ اس عادت کے پیچھے بارہ ٹہنی جیسے کھیل کا بڑا ہاتھ ہے۔ کیونکہ جب آپ یہ کھیل کھیلتے ہیں تو آپ کو ہر چال کے امکانات پر غور کرنا پڑتا ہے۔ آپ کو سوچنا ہوتا ہے کہ اگر میں یہ قدم لوں تو اگلا قدم کیا ہوگا، اور اس کے جواب میں میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہی عادت گفتگو میں بھی آتی ہے۔ دوسروں کے جملے کا فوری جواب دینا اور طنز کا بہترین توڑ پیش کرنا اسی سوچ بچار کا نتیجہ ہے۔

بارہ ٹہنی کھیلنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہ کھیل انسان کو صبر سکھاتا ہے۔ آپ کو ہر چال سوچ سمجھ کر کھیلنی ہوتی ہے، ورنہ ایک غلط قدم ساری محنت ضائع کر دیتا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ کھیل آپ کو مخالف کے دماغ کو پڑھنا سکھاتا ہے۔ آپ اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ کیا سوچ رہا ہے اور کیا کرنے والا ہے۔ زندگی میں بھی یہی فائدہ ہوتا ہے۔ آپ اپنے دوستوں، دشمنوں یا ساتھیوں کی باتوں اور رویوں سے یہ اندازہ لگانا سیکھ جاتے ہیں کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں۔


تیسرا فائدہ یہ ہے کہ یہ کھیل حکمتِ عملی کا درس دیتا ہے۔ جب آپ بارہ گیٹیوں کے ساتھ کھیلتے ہیں تو آپ کو اپنے وسائل کا صحیح استعمال سیکھنا پڑتا ہے۔ آپ کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کہاں دفاع کرنا ہے اور کہاں حملہ کرنا ہے۔ یہ بالکل زندگی کے فیصلوں جیسا ہے، جہاں آپ کو ہر وقت یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے، کب آگے بڑھنا ہے اور کب پیچھے ہٹنا ہے۔


میں نے بارہ ٹہنی کھیل کر یہ سیکھا کہ زندگی میں ہر قدم سوچ سمجھ کر لینا ضروری ہے۔ جب کوئی میرے سامنے کوئی بڑی چال چلتا ہے تو میں اکثر مسکرا دیتا ہوں، کیونکہ مجھے وہ پہلے سے پتہ ہوتی ہے۔ یہ مسکراہٹ اس اعتماد کی ہوتی ہے جو برسوں کے کھیلنے کے تجربے سے آتا ہے۔ لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ شاید یہ غیب کا علم ہے، لیکن حقیقت میں یہ محض مشق اور تجربے کا نتیجہ ہے۔ جب آپ بارہ اطراف سے آنے والی چالوں کے عادی ہو جائیں تو پھر زندگی کی چالیں بھی آپ کو سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہیں۔


یہی وجہ ہے کہ میں اکثر مشکل حالات میں بھی گھبراتا نہیں۔ مجھے پتہ ہوتا ہے کہ ہر مشکل کے پیچھے کوئی نہ کوئی چال چھپی ہے، اور اگر میں صبر اور حکمت سے کام لوں تو اس کا حل نکال سکتا ہوں۔ بارہ ٹہنی نے مجھے یہ سکھایا کہ ہر چال کا جواب موجود ہے، بس سوچنے اور انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔

بارہ ٹہنی صرف ایک کھیل نہیں بلکہ ایک سماجی سرگرمی بھی تھی۔ گاؤں کے بچے، نوجوان اور بڑے سب اس میں شریک ہوتے۔ کھیلتے کھیلتے قہقہے، باتیں اور جگتیں چلتی رہتیں۔ کبھی کوئی ہارتا تو کبھی جیتتا، لیکن اصل مقصد ساتھ بیٹھنے اور وقت گزارنے کا ہوتا۔ یہ کھیل رشتوں کو جوڑنے اور یادیں بنانے کا ذریعہ بنتا۔


بدقسمتی سے آج کے دور میں کمپیوٹر گیمز، موبائل فون اور انٹرنیٹ نے ان سادہ کھیلوں کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ بچے اب گیٹیاں چلانے کے بجائے موبائل اسکرین پر انگلیاں چلاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بارہ ٹہنی جیسے کھیل ذہنی نشوونما کے لیے زیادہ مفید ہیں۔ یہ کھیل نہ صرف دماغ کو تیز کرتے ہیں بلکہ انسان کو زندگی کی پیچیدگیوں کے لیے بھی تیار کرتے ہیں۔

بارہ ٹہنی میرے لیے محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک درسگاہ ہے۔ اس نے مجھے سکھایا کہ زندگی میں ہر چال کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ اس نے مجھے یہ ہنر دیا کہ دوست نما دشمنوں کو پہچانوں اور ان کی آنے والی چالوں کو پہلے ہی سمجھ سکوں۔ اس نے مجھے صبر دیا، حکمت دی، اور مسکرانے کا ہنر دیا۔

آج بھی جب میں کسی مشکل صورتِ حال کا سامنا کرتا ہوں، تو دل ہی دل میں محسوس کرتا ہوں کہ جیسے بارہ ٹہنی کھیل رہا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ جس نے بچپن میں بارہ ٹہنی کھیلی ہو، وہ زندگی کی بارہ اطراف سے آنے والی مشکلات کا سامنا بھی بہتر کر سکتا ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا