ستائیسویں آئینی ترمیم اور آرٹیکل 243 میں بڑی تبدیلی کیوں ضروری؟

0
1908
سندر شعیب ایڈووکیٹ

پاکستان کے سیاسی، دفاعی اور آئینی منظرنامے میں حالیہ برس میں ایک بار پھر ایسی بحث جنم لے چکی ہے جو ملکی طاقت کے توازن، ادارہ جاتی ڈھانچے، سول–ملٹری تعلقات اور آئینی شفافیت کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم اور خصوصاً آرٹیکل 243 میں مجوزہ تبدیلی کو اسی وسیع تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ آخر یہ ترمیم کیوں ضروری سمجھی جا رہی ہے اور اس کے ذریعے کون سی بڑی آئینی کمزوریاں یا خلا پر کیے جا رہے ہیں؟ یہ مضمون اسی سوال کا جامع تجزیہ ہے۔آئینِ پاکستان مسلح افواج کے حوالے سے بنیادی ڈھانچہ ضرور فراہم کرتا ہے، مگر اس میں کئی ایسے پہلو موجود ہیں جن کی وضاحت کبھی نہیں کی گئی ہے جیسا کہ ۔ آرٹیکل 243 میں “کمانڈ آف آرمد فورسز” کا ذکر تو ہے، لیکن “فیلڈ مارشل” جیسے اعلیٰ فوجی عہدے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ملتی بلکہ یہ ایک ہوا میں معلق ایک سٹیٹس ہے ۔ پاکستان میں یہ رتبہ تاریخ میں صرف علامتی یا اعزازی طور پر استعمال ہوا، لیکن آئین نے کبھی یہ واضح نہیں کیا کہ اس رتبے کی نوعیت، حیثیت، اختیارات یا مدت کیا ہو سکتی ہے۔ اسی خلا نے اس ترمیم کی ضرورت پیدا کی۔ترمیم کے حامیوں کا مؤقف ہے کہ اگر ریاست کسی کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ کرے، تو اس کے اختیارات اور حلقہ اختیار کی آئینی وضاحت ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر، ایسا عہدہ نہ صرف غیر واضح رہے گا بلکہ اس کے سبب ادارہ جاتی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔لہذا حکومت اسے آئینی حثیت دینے کی خواہاں ہے اور اس حوالہ سے ایک تجویز یہ ہے کہ فیلڈ مارشل کو صدر کے برابر کامرتبہ،پروٹوکول اور مراعات دے دی جائیں تاکہ فیلڈ مارشل کو بھی عالمی دوروں میں ایک خاص اہمیت حاصل ہو سکے اور یہ عہدہ تاحیات رہے


آخر یہ ترمیم کیوں ضروری ہے؟ستائیسویں آئینی ترمیم اور آرٹیکل 243 میں تبدیلی کو ضروری سمجھنے کی چند مرکزی وجوہات درج ذیل ہیں


عسکری عہدوں کی آئینی حیثیت کا تعین ،تقرری اور اختیارات کے بحرانوں کا خاتمہ،سول–ملٹری تعلقات میں توازن ،غیر آئینی طاقت کے مراکز کا خاتمہ ،دفاعی ڈھانچے میں شفافیت،عدالتوں اور حکومت کے درمیان تنازعات کی روک تھام بھی ایک اہم مسئلہ ہے ریاستی تسلسل اور ادارہ جاتی استحکام کے حوالے سے پاکستان کی آئینی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی آئین میں خلا چھوڑ دیا جاتا ہے، وہ خلا کہیں نہ کہیں بحران کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم اسی خلا کو بند کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کی منظوری یا ترمیم کا حتمی فیصلہ تو پارلیمنٹ نے کرنا ہے، مگر بظاہر یہ واضح ہے کہ پاکستان کے مستقبل کے ادارہ جاتی توازن میں یہ ترمیم اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔گزشتہ چند برس میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت اور توسیع سے متعلق متعدد قانونی بحران سامنے آئے۔ سپریم کورٹ نے 2019 میں اس حوالے سے اپنا فیصلہ سنایا اور حکومت کو واضح قانون سازی کا حکم دیا۔ اگرچہ بعد میں پارلیمنٹ نے آرمی ایکٹ میں ترامیم کیں، مگر آئینی ماہرین کا خیال ہے کہ معاملہ ابھی بھی پوری طرح حل نہیں ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ عسکری عہدوں کی اصل آئینی حیثیت، ان کے اختیارات، ذمہ داریاں، اور وفاقی حکومت کا رول واضح نہیں ہے۔ستائیسویں آئینی ترمیم اسی بڑے خلا کو پر کرنے کی کوشش ہے تاکہ مستقبل میں سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی یا آئینی تنازع پیدا نہ ہو۔

سول–ملٹری تعلقات میں توازن کی ضرورت

پاکستان کی سیاسی تاریخ عسکری مداخلت، سیاسی عدم استحکام، اور ادارہ جاتی کشمکش سے بھری پڑی ہے۔ اکثر معاملات میں اختیارات کا توازن غیر واضح رہا، جس سے کبھی سیاسی حکومت کو، کبھی عدلیہ کو اور کبھی عسکری اداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اس پس منظر میں مجوزہ ترمیم ایک ایسا فریم ورک بنانے کی کوشش ہے جواداروں کے درمیان اختیارات کی لکیر کو واضح کرے،کمانڈ اور نظم و ضبط کے نظام کو آئینی پختگی دے،اور کسی بھی ادارے کو غیر آئینی اثر و رسوخ کے اصول سے دور رکھے۔اگر فیلڈ مارشل یا کسی اور اعلیٰ دفاعی عہدے کو آئینی طور پر تسلیم کر لیا جائے تو یہ عسکری ڈھانچے کو قانونی استحکام دے گا اور غیر رسمی طاقت کے مراکز کو کم کر سکتا ہے۔

دفاعی ڈھانچے کی شفافیت اور آئینی بنیادیں

پاکستان کے دفاعی ڈھانچے میں کئی فیصلے روایت، طریقۂ کار یا اندرونی پالیسیوں کی بنیاد پر کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر آئین کا حصہ نہیں۔ چنانچہ جب کوئی غیر معمولی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے—جیسے توسیع کا مسئلہ، قبل از وقت ریٹائرمنٹ، اختیارات کی کشمکش—تو آئینی خلا سامنے آ جاتا ہے۔ترمیم کے ذریعے حکومت چاہتی ہے کہمسلح افواج کے تمام اعلیٰ عہدے آئینی تعریف کے تحت آ جائیں،ان کے تقرری کے طریقے کا تعین آئین ہی کرے،کسی بھی تنازع کا فیصلہ عدالتوں کو محض آئینی متن دیکھ کر کرنا آسان ہو جائے۔اس سے نہ صرف ادارہ جاتی شفافیت بڑھے گی بلکہ دفاعی ڈھانچے کا تسلسل بھی مضبوط ہوگا۔

آئینی بحرانوں سے بچاؤ

عدالتوں نے گزشتہ برسوں میں عسکری معاملات میں مداخلت اسی وقت کی جب قانون یا آئین میں خلا موجود تھا۔ آرٹیکل 243 میں ترمیم سے یہ خلا پُر ہو سکتا ہے۔ ایک واضح آئینی راستہ ہونے سے عدالتوں کو ازخود مداخلت کی ضرورت کم ہو گی،وفاقی حکومت کا اختیار واضح ہو جائے گا،عسکری قیادت کا قانونی مقام باقاعدہ تحریری صورت اختیار کرے گا۔یہ پہلو خصوصاً اس لیے اہم ہے کہ آئینی بحران ہمیشہ ریاستی اداروں کی ساکھ اور سیاسی استحکام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ترمیم کے محرکین کا کہنا ہے کہ پاکستان آج ایک ایسے مقام پر ہے جہاں مضبوط آئینی اصول ریاستی ڈھانچے کی بقاء کے لیے ضروری ہیں۔ بار بار آئینی ابہام، سیاسی عدم استحکام کو جنم دیتا ہے اور دفاعی اداروں پر تنقید بڑھتی ہے۔

ایک جامع آئینی فریم ورک

پالیسی کی تسلسل کو یقینی بناتا ہے،تبدیلیِ حکومت کے باوجود دفاعی فیصلوں کو غیر متنازع رکھتا ہے،سیاسی جماعتوں اور عسکری اداروں کے درمیان اعتماد قائم کرتا ہے۔یہ امر اس لیے بھی اہم ہے کہ علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کی دفاعی حیثیت ایک سنگین مرحلے سے گزر رہی ہے۔ ایسے میں مضبوط آئینی ڈھانچہ قومی سلامتی کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔فیلڈ مارشل کے ممکنہ اختیارات متعلق ایک ابہام جسے ختم کرنا ضروری ہے حالیہ اطلاعات کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ فیلڈ مارشل کوایک آئینی عہدے کے طور پر تسلیم کیا جائے،اس کی مدت، تقرری اور اختیارات تحریری طور پر واضح کیے جائیں،اسے اعزازی کے بجائے ایک باقاعدہ حیثیت دی جائے، اگر ریاست اسے ایسا بنانا چاہے۔یہ فیصلہ ملک میں طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر فیلڈ مارشل کو بہت زیادہ اختیارات مل گئے تو عسکری قیادت میں ایک اضافی سطح پیدا ہو جائے گی، جبکہ ن لیگی اور اتحادی حلقے اسے دفاعی نظام کی بہتری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا