سی ڈی اےمیں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں اور اختیارات کا ناجائز استعمال ؟آڈٹ رپورٹ

0
2014

اسلام آباد( نعمان حیدر )آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024-25میں سی۔ڈی۔اے میں 84ارب کی بد انتظامی ریکارڈ کی گئی اور31آڈٹ اعتراضات لگائے گئے جس میں بڑے پیمانے پرمالی بے قاعدگیوں، اوراختیارات کے ناجائز استعمال کاانکشاف ہواہے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں میں ساڑھے تین ارب،ریونیوکے شعبہ میں ایک ارب جبکہ دیگرڈائریکٹوریٹس میں چھ ارب سے زائد کی بے ضابطگیاں کی گئیں۔رپورٹ کے مطابق پچھلے کئی سالوں سے سی۔ڈی۔اے کے آڈٹ اعتراضات کے مطابق قوانین کی عملداری نہیں ہوسکی اورمالی سال 2010-11کے بعد سے لیکر پچھلے مالی سال تک نصف سے زائد آڈٹ پیرازپرقوانین کیمطابق نہ تومتعلقہ افسران کیخلاف کوئی قانونی کاروائی کی گئی ہے نہ ہی ٹھیکوں کی تقسیم،موبلائزیشن ایڈوانس اوردیگرشعبوں میں ہونی والی کرپشن کی رقم ریکوری کی گئی ہے۔اعدادوشمار کے مطابق پچھلی ایک دھائی کے دوران صرف سی۔ڈی۔اے میں سینکڑوں ارب کیخرد بردکی گئی جس سے آڈیٹرجنرل آف پاکستان کی دوروزقبل پیش کی گئی رپورٹ اورتین لاکھ پچھتر ہزارارب کی کرپشن کے موقف کوتقویت ملتی ہے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق سی۔ڈی۔اے کی سب سے بڑی ناکامی سی۔ڈی۔اے شعبہ پلاننگ نے بحریہ ٹاون سے زون فائیومیں واقع بحریہ پیراڈائزکے پراجیکٹ کاقوانین کے مطابق بیس فیصد سی۔ڈی۔اے کے نام پرگروی نہ کروانا ہے جس میں ادارے کو47ارب سے زائد کانقصان ہوا۔دوسری جانب پارک انکلیو میں سی۔ڈی۔اے نے 984پلاٹس کے 11ارب سے زائدوصول کئے لیکن پلاٹس مالکان کے حوالے کرنے میں ناکام رہے جبکہ پارک انکلیومیں بھی 21کروڑ کی سٹیٹ ریکوری کرنے میں ناکام رہا۔اسی طرح کارنراوراچھی لوکیشن کے چارجز وصول نہ کرنے اورملی بھگت کرنے سے سی۔ڈی۔اے کو32کروڑکانقصان ہوا۔چئیرمین سی۔ڈی۔اے کے لاڈلے ڈی۔جی ورکس کے ماتحت ترقیاتی کاموں میں اربوں کےمعاملات کاانکشاف ہواہے اورقوانین کی خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں۔سیکٹرڈویلپمنٹ کے شعبہ میں 36کروڑکی بے ضابطگیاں کی گئیں جبکہ 54کروڑغیرقانونی طورپرٹھیکے داروں کوموبلائزیشن ایڈوانس کی شکل میں اداکئے گئے۔مختلف ٹھیکوں میں 25کروڑکی بے قاعدگیاں کی گئیں اورمن پسند ٹھیکیداروں کونوازاگیا۔سیکٹرڈویلپمنٹ میں آئی۔بارہ اوردیگرسیکٹرزکے کاموں میں 54کروڑکے گھپلے کئے گئے۔کنٹریکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے سے سی۔ڈی۔اے کودس کروڑکانقصان ہواجس میں شعبہ ورکس کے افسران نے من پسند ٹھیکیداروں کونوازا۔اسی طرح انشورنس کوریج کی مدمیں سی۔ڈی۔اے کو55کروڑکانقصان ہوا۔موبلائزیشن ایڈوانس کی مدمیں 30کروڑسے زائد چند مخصوص ٹھیکیداروں کواداکئے گئے جبکہ جن کاموں کیلئے ان کوٹھیکہ دیاگیااس پرآج تک کام نہیں شروع کیاجاسکا۔شعبہ مینٹی نینس نے چند مخصوص گھروں کی تعمیرومرمت پر قوانین کے برخلاف 8کروڑسے زائد خرچ کئے۔نسٹ یونیورسٹی سے سالانہ گراونڈرینٹ کی مد 57کروڑسی۔ڈی۔اے کے متعلقہ افسران وصول کرنے میں ناکام رہے۔شعبہ اسٹیٹ کی جانب سے کمرشل پلاٹس کی منسوخی میں قوانین کی خلاف ورزی سے سی۔ڈی۔اے کوایک ارب سترکروڑسے زائد نقصان ہوا۔شعبہ سٹیٹ ایک ارب اسی کروڑسے زائد کی کمرشلائزیشن فیس وصول کرنے میں ناکام رہا۔قوانین کیمطابق سی۔ڈی۔اے کمرشل بلڈنگز،پلازوں اوراپارٹمنٹس سے فی مربع گزسات ہزارپانچ سو روپے وصول کرتاہے۔یہ تمام فیس سی۔ڈی۔اے بحریہ پیراڈائزکے کمرشلز سے وصول کرنی تھی۔سی۔ڈی۔اے کے شعبہ پلاننگ نے جناح گارڈن سوسائٹی کے ایمینٹی پلاٹس کوتحلیل کیاجس سے قومی خزانے کودوارب سے زائدکانقصان ہوا۔اسی طرح رستے کی فراہمی کی مد میں ہاوسنگ سوسائیٹیزسے ریونیوڈیپارٹمنٹ 40کروڑکی ریکوری کرنے میں ناکام رہا۔اسلام آبادمیں ماحول دوست بائی سائیکل لین کی مدمیں 32کروڑکواداکئے گئے لیکن اس پراجیکٹ کانام ونشان تک وفاقی دارالحکومت میں موجودنہیں۔اسی طرح گذشتہ دورحکومت میں شروع کئے گئے فراش ٹاون ہائی رائزڈاپارٹمنٹس ہاوسنگ منصوبے میں تاخیرکے باعث اورتعمیراتی میٹریل مہنگاہونے کے باعث اب تک 14کانقصان ہوچکاہے۔ ان سب بے ضاطگیوں اور قانونی پہلووٗں کی نظر اندازیوں سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ گھپلے ہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا