دنیا ایک فیصلہ کن دوراہے پر کھڑی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری خونریزی، سیاسی تعطل، اور انسانی بحران نے عالمی برادری کو مجبور کیا ہے کہ غزہ میں مستقل امن کے لیے ایک منظم بین الاقوامی بندوبست قائم کیا جائے۔ انہی کوششوں کے نتیجے میں ایک عالمی استحکامی فورس کی تجویز سامنے آئی ہے، جس میں مختلف ممالک کی شرکت پر غور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کا نام بھی انہی ممکنہ شراکت دار ممالک میں لیا جا رہا ہے۔لیکن یہاں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا پاکستان کو ایسی کسی بین الاقوامی فورس کا حصہ بننا چاہیے؟ اس بارے میں بہت سی آرا سامنے آ رہی ہیں—بعض جذبات پر مبنی، بعض بدگمانی میں ڈوبی ہوئی، اور بعض مکمل طور پر امکانات سے خوفزدہ۔ ہمیں ان تمام آرا کا احترام کرتے ہوئے حقیقت پسندی اور ریاستی ذمہ داری کے زاویے سے بھی معاملہ دیکھنا ہوگا۔دنیا اس وقت ایک نئے سفارتی بندوبست کی تشکیل میں مصروف ہے۔ امریکا کی جانب سے پیش کیے گئے مجوزہ 20 نکاتی امن فارمولے میں غزہ کے لیے ایک بین الاقوامی استحکامی فورس کے قیام پر غور جاری ہے۔ کچھ اسرائیلی اور مغربی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ممکنہ فورس میں چند مسلم ممالک کے دستے بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، جن میں پاکستان کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد نے اس حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں کیا، لیکن حکومت نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کسی ایسی فورس کا حصہ اسی وقت بنے گا جب اس کے مینڈیٹ اور ذمہ داریوں کی نوعیت غیر مبہم ہو۔تاہم ملک میں اس تجویز کے خلاف ایک مضبوط جذباتی ردِعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ کئی حلقے اسے اسرائیلی ایجنڈے کے تحت تشکیل دی جانے والی فورس سمجھتے ہیں یا پھر اس کے ممکنہ مینڈیٹ کو “حماس کی غیر مسلح کاری” سے جوڑ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسی تشویش حقیقت پر مبنی ہے یا ہم جذبات کے غلبے میں پالیسی معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔یہ طے ہے کہ پاکستان کے عوام فلسطینیوں کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ تاریخی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کے جذبات سے کوئی انکار نہیں۔ لیکن خارجہ پالیسی ہمیشہ ریاستی ذمہ داریوں، عالمی قوانین، اور قومی مفاد کو سامنے رکھ کر طے کی جاتی ہے۔ جذبات یہاں رہنمائی تو کرتے ہیں، فیصلہ سازی نہیں۔پاکستان نے سات دہائیوں میں دنیا بھر کے امن مشنز میں حصہ لیا ہے۔ یہ کردار اس لیے ممکن ہوا کہ پاکستانی فوج نے ہمیشہ غیر جانبداری، پیشہ ورانہ معیار اور انسانی تحفظ کے اصولوں کے ساتھ کام کیا۔ یہی تجربہ اسے بین الاقوامی سطح پر قابلِ اعتماد بناتا ہے۔
بین الاقوامی استحکامی فورس کا بنیادی مقصد
جنگ بندی کی نگرانی،شہری آبادی کی حفاظت،انسانی امداد کی بحالی،تعمیر نو کے منصوبوں کی سکیورٹی اور کسی بھی ممکنہ تصادم کو روکنا ہو سکتا ہے۔
اس کا مقصد کسی گروہ کے خلاف کارروائی یا مقامی مزاحمت کو دبانا نہیں ہوتا۔ عالمی امن فورسز کے مینڈیٹ میں جارحانہ کارروائی شامل نہیں ہوتی، خصوصاً اس وقت جب مقامی آبادی اس فورس کو جانبدار سمجھنے لگے۔
“پاکستان کو اسرائیل منتخب کرے گا” — حقیقت یا سیاسی تاثر؟
بعض اسرائیلی رہنماؤں کے بیانات نے خدشات کو جنم دیا، مگر عملی دنیا میں کسی بھی امن فورس میں شمولیت کوئی ملک کسی دوسرے پر مسلط نہیں کر سکتا۔پاکستان اپنی شمولیت کا فیصلہ:اپنے قومی مفاد،اپنی شرائط اور بین الاقوامی ضمانتوں کی بنیاد پر کرے گا۔ پاکستان کسی بھی ایسے انتظام کا حصہ نہیں بنے گا جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ وہ ایک فریق کے ایجنڈے کو تحفظ دے رہا ہے۔پاکستان صرف اپنی سرحدوں تک محدود رہے؟یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ پاکستان کو پہلے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی ذمہ دار ریاست مکمل طور پر خطے یا دنیا سے کٹی نہیں رہ سکتی۔ پاکستان نے ہمیشہ مسلم دنیا اور عالمی برادری میں ایک فعال کردار ادا کیا ہے۔ یہی کردار اس کی سفارتی ساکھ کو بھی مضبوط کرتا ہے۔
امن فورس کی شکل میں پاکستان کا کردار فلسطینیوں کیلئے مندرجہ ذیل فوائد لا سکتا ہے
بہتر سکیورٹی ماحول
امدادی راستوں کا محفوظ انخلا
فوری بحالی کے منصوبوں کا تحفظ
اور سیاسی عمل کی بحالی کیلئے سازگار ماحول
یہ تمام عناصر وہ ہیں جن کی فلسطینی عوام کو فوری ضرورت ہے۔سوال اصل میں بہت سادہ ہے۔کیا پاکستان ایسی فورس میں شامل ہو جہاں مینڈیٹ واضح ہو،فورس غیر جانبدار ہو،مقصد شہری آبادی کا تحفظ ہو،کمان عالمی ادارے کے تحت ہو،اور پاکستان کی قومی، سفارتی اور اخلاقی پوزیشن مضبوط ہو؟اگر یہ شرائط پوری ہوں تو پاکستان کی شمولیت نہ صرف فلسطینی عوام کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے بلکہ پاکستان کی عالمی ساکھ کو بھی مضبوط کر سکتی ہے۔غزہ کیلئے کسی بھی بین الاقوامی فورس میں پاکستان کی ممکنہ شمولیت جذبات اور سیاسی نعروں کے بجائے عقل، تجربے اور بین الاقوامی ذمہ داری کے تقاضوں کے مطابق دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ نہ اسرائیل کرے گا، نہ کوئی اور طاقت؛ پاکستان اپنے قومی مفاد اور اصولی مؤقف کی روشنی میں خود کرے گا۔ اگر پاکستان کسی کردار کا انتخاب کرتا ہے تو وہ کردار امن، انسانی تحفظ اور غیر جانبدار سفارت کاری کا ہوگا—نہ کہ کسی فریق کی جنگ کا حصہ بننے کا۔پاکستان کی اصل طاقت اسی حقیقت پسندی اور پیشہ ورانہ وقار میں پوشیدہ ہے۔غزہ کیلئے کسی بھی بین الاقوامی فورس میں پاکستان کی ممکنہ شمولیت جذبات اور سیاسی نعروں کے بجائے عقل، تجربے اور بین الاقوامی ذمہ داری کے تقاضوں کے مطابق دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ نہ اسرائیل کرے گا، نہ کوئی اور طاقت؛ پاکستان اپنے قومی مفاد اور اصولی مؤقف کی روشنی میں خود کرے گا۔ اگر پاکستان کسی کردار کا انتخاب کرتا ہے تو وہ کردار امن، انسانی تحفظ اور غیر جانبدار سفارت کاری کا ہوگا—نہ کہ کسی فریق کی جنگ کا حصہ بننے کا۔پاکستان کی اصل طاقت اسی حقیقت پسندی اور پیشہ ورانہ وقار میں پوشیدہ ہے






