شیان قدیم شاہراہ ریشم کے آخری کنارے پر ہے۔ ساتویں صدی کے بعد، تانگ حکمرانوں کے دور میں یہ شہر بین الاقوامی میل جول کا گواہ رہا ہے۔ تانگ حکمران نے بودھ راہب ژوان زانگ کو بدھ مت کی قدیم ترین کتاب مہایان بھارت سے چین لانے اور اسے سنسکرت سے چینی زبان میں ترجمہ کرنے پر مامور کیا تھا۔ اسلام کی طرح بدھ مت بھی چین میں درآمد شدہ مذہب ہے۔
اسلامی عقیدے کے پیرو پہلی مرتبہ سمندر کے راسے چین پہنچے تھے۔ پیغمبر اسلام کے ایک صحافی سعد بن وقاص نے سن 651 میں تانگ بادشاہ سے ملاقات کی اور ملک میں پہلی مسجد کی تعمیر کے لیے شاہی اجازت حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ شیان کی جامع مسجد، جو شاہی محل سے زیادہ دور نہیں ہے، اسی دور میں تعمیر کی گئی تھی۔
عرب تاجر بھی مغرب سے وسطی ایشیا کے راستے اس شہر میں آتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ پرتعیش ساز وسامان اور غیر ملکی نظریات بھی لاتے تھے۔ آج یہ مسجد مسلمانوں کی آبادی کے وسط میں ایک بازار کے قریب ہے۔
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک پیو ریسرچ کے مطابق چین میں اس وقت تقریباً سترہ ملین مسلمان ہیں۔ ان میں بیشتر شیعہ مسلک کے ماننے والے ہیں۔ سب سے بڑی مسلم کمیونٹی ہوئی اور ایغور ہے، جن میں سے ہر ایک کی آبادی 80 لاکھ کے آس پاس ہے۔
مسیحیوں کی طرح مسلمانوں کو بھی چین میں بیرونی ممالک سے براہ راست رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ وفاقی جرمنی کی ایجنسی برائے شہری تعلیم کا کہنا ہے،” صرف محب الوطن مذہبی انجمنوں کو تفصیلی انتظامی ضوابط کی پابندی کرتے ہوئے اپنے مندروں، گرجا گھروں، مسجدوں اور رجسٹرڈ جلسہ گاہوں میں قانونی طورپر سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت ہے۔”
برطانوی روزنامہ ‘دی گارڈین’ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین کی آخری بڑی مسجد، جس میں اب بھی عربی طرز کی خصوصیات برقرار ہیں، فروری میں اپنے گنبدوں سے محروم ہوگئی۔ جنوب مغربی صوبے یونان کے شہر شادیان میں واقع اس مسجد کے میناروں کو بھی چینی طرز تعمیر سے یکسر تبدیل کردیا گیا۔
تاریخ داں اور فلسفی کن گوشانگ کا کہنا ہے،”چینی تاریخ میں بہت سے شہنشاہ اور سیاست داں گزرے ہیں، جنہوں نے عوام کو کنٹرو ل کرنے اور ان پر حکومت کرنے پر توجہ مرکوز کی۔اور اسی لیے انہوں نے تمام مذاہب کو ریاستی نگرانی میں رکھا۔”
“انہوں نے مذاہب کے آفاقی عقائد کو دباکر، ریاست کے زیر کنٹرول مذاہب متعارف کرائے اور مذہبی سرگرمیوں کو محدود کرکے خدائی طاقت کے اثرات کو کمزور کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔” کن گوشانگ کے مطابق آج کا چین بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔