سیلاب

0
146
محمد اظہر حفیظ

سیلاب ہر طرف تباہی پھیلا رہا ہے۔ میری لکھنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی ۔ تکلیف بہت زیادہ ہے کیا لکھوں ۔ الفاظ میرے بس میں نہیں ہیں۔ لکھنے بیٹھتا ہوں تو رونے لگ جاتا ہوں۔ متاثرہ والدین کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی۔ یہ بے بسی مجھے والد بننے کے بعد محسوس ہونا شروع ہوئی پہلے شاید بے حس تھا۔ 1947 کے بعد پھر ہجرت کا ماحول ہے۔ لیکن اب منزل نہیں پتہ کہ جانا کدھر ہے۔ ہر کوئی اپنی ہمت سے زیادہ مدد کی کوشش کررہا ہے ۔ گورنمنٹ اپنی جگہ کام کررہی ہے ۔ 1122 کی کارکردگی بھی قابل تحسین ہے ۔ بہت سارے دوست بہت محنت کررہے ہیں اس میں زنیر صاحب فیصل آباد سے کرکٹر احمد شہزاد صاحب، رضوان چوہدری صاحب،حدیقہ کیانی صاحبہ اور دوسرے بہت سارے دوست ملکر مدد کررہے ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن بھی سر گرم عمل ہے۔ یہ ایک قدرتی آفت ہے اس پر سیاسی اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے۔ بس مدد اور خدمت ہونی چاہیے۔ جب میرا جگر کا ٹرانسپلانٹ ہوا تو ایک دوست کہنے لگے یار جب ہماری زندگی سیٹ ہونے لگتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بیماری ہمیں دوبارہ سیڑھی کے پہلے قدم پر پہنچا دیتی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کے گھر ، مال ، مویشی، بچے ، کھیت کھلیان سب کچھ ہی تو بہہ گیا پیچھے بے بسی بچی ہے۔ تمام متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ دن رات خدمت پر مامور ہے۔ کچھ دوستوں کا اعتراض ہے کہ ویڈیوز کیوں بنا رہے ہیں کچھ ویڈیوز قابل اعتراض بھی ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ بھی کررہی ہیں کہ مدد کیلئے آگے ائیں۔ اس لیے ضروری نہیں کہ ہر بات کے منفی پہلو ہی ہوں۔ مثبت پہلو بھی ہوتے ہیں۔ سیلاب تو آگے سے آگے بڑھ رہا ہے اور ہماری اتنی ہمت نہیں کہ اس کے ساتھ ہم بھی مدد کیلئے آگے بڑھ سکیں۔ پاکستان اور ہر پاکستانی مشکل میں ہے ۔ ہمیں مل کر سوچنا ہوگا اور اپنے وسائل اکٹھے کرکے مدد کرنا ہوگی۔ میری درخواست ہے چندہ دینے کی بجائے آگے بڑھ کر خود مدد کی کوشش کریں اپنے ہاتھ سے مدد کرنے میں جو مزہ ہے وہ شاید دوسرے طریقے سے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اس آفت میں ہماری مدد کریں۔ آمین


مدد کی راہ دیکھنے والے بہت زیادہ ہیں ہم سب کو مدد کرنے کیلئے اپنے اپنے وسائل کے مطابق نکلنا ہوگا تبھی جا کر ہم لوگوں تک پہنچ سکیں گے۔ ویڈیوز دیکھ تو لی ہیں پر یہ دکھ بھرے تباہی کے مناظر میری آنکھوں سے نہیں جارہے۔ ہم بہت کمزور ہیں جسمانی لحاظ سے بھی اور مالی لحاظ سے بھی تیرنا بھی نہیں آتا اور جمع پونجی بھی کیمرے ہی ہیں۔ زلزلے میں اور پچھلے سیلاب میں فلمیں بناتے رہے مدد کرتے رہے۔ اس دفعہ تو ہمت ہی نہیں یہ سب کچھ برداشت کرنے کی۔ مجھے یاد ہے پچھلے سیلاب میں مسلم ایڈ کی فلم بنا رہے تھے۔ میری والدہ کو پاکستان بننے کے دنوں میں جو سیلاب آیا تھا وہ سب بری طرح یاد تھا کیسے سانپ آجاتے تھے اور میری خالہ سانپ کو پکڑ کر مار دیتیں تھیں۔پوچھنے لگیں کہ یہ مسلم ایڈ والے کام ٹھیک کررہے ہیں۔ میں عرض کیا جی امی جی بلکل ٹھیک اور جن کے ساتھ ہم کام کررہے ہیں خبیب واحدی بھائی وہ بہت ہی شاندار انسان ہیں۔ امی جی نے اپنے کانوں کی بالیاں اتاریں اور مجھے دے دیں کہ ان کو دے آؤ ۔ امی جی میں پیسے دے آتا ہوں نہیں یہ میرے جہیز کی ہیں اس سے تمھارے نانا جی کو بھی ثواب ہو گا۔ اور میں وہ بالیاں بیچ کر پیسے مسلم ایڈ کو دے آیا ۔ ہمیں ایسے ہی اقدامات کرنے ہونگے اس ناگہانی آفت سے نپٹنے کیلئے ۔ کچھ دوست اب بند بنانے پر شور کررہے ہیں۔ ان آفتوں کے آگے بند تنکے ثابت ہوتے ہیں۔ ورنہ سوات، ہنزہ اور دیگر مقامات کا حشر دیکھ لیں۔
اللہ تعالیٰ آسانی والا معاملہ فرمائیں آمین۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا